زندگی کے پانچ درس
حدیث :
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم: ایہاالناس! یا تعطوا الحکمة غیر اہلہا فتظلموہا، ولا تنمعوہا اہلہا فتظلموہم،ولا تعاقبوا ظالماً فیبطل فضلکم، و لا تراؤوالناس فیحبط علملکم،و لاتمنعوا الموجود فیقل خیرکم ، ایہا الناس! ان الاشیاء ثلاثة: امر استبان رشدہ فاتبعوہ، وامر استبان غیہ فاجتنبوہ، وامر اختلف علیکم فردہ الیٰ الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [1]
ترجمہ :
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! نااہل افراد کو علم و حکمت نہ سکھاؤ کیو ںکہ یہ علم و حکمت پر ظلم ہوگا،اور اہل افراد کو علم و حکمت عطا کرنے سے منع نہ کرو کیو ںکہ یہ ان پر ظلم ہوگا۔ستم کرنے والے سے ( جس نے آپ کے حق کو پامال کیاہے)بدلہ نہ لو کیو ں کہ اس سے آپ کی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔ اپنے عمل کو خالص رکھو اور کوئی بھی کام ریاکے طور پر انجام نہ دو، کیونکہ اگر ریا کروگے تو آپ کے اعمال حبط ہو جائیں گے، جو تمھارے پاس موجود ہیں اس میں سے الله کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ بچو، کیونکہ اگر اس کی راہ میں خرچ کرنے سے بچوں گے تو الله آپ کی خیر کو کم کردے گا۔ اے لوگو! کاموں کی تین قسمیں ہیں۔ کچھ کام ایسے ہیں کہ جن کا صحیح ہونا ظاہر ہے لہٰذا ان کو انجام دو، کچھ کام ایسے ہیں جن کا باطل ہونا ظاہر لہٰذا ان سے پرہیز کرو اور کچھ کام ایسے یہں جو تمھاری نظر میں مشتبہ ہیں بس ان کو سمجھنے کے لئے ان کو الله کی طرف پلٹا دو “
حدیث کی شرح :
یہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہیں۔
حدیث کا پہلا حصہ :
حدیث کے پہلے حصے میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پانچ حکم بیان فرمارہے ہیں۔
) نا اہل لوگوں کو علم عطا نہ کرو کیونکہ یہ علم پر ظلم ہوگا۔
) علم کے اہل لوگوں کو علم عطا کرنے سے منع نہ کروکیونکہ یہ اہل افراد پر ظلم ہوگا۔ اس تعبیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طا لب علم کے لئے کچھ شرطیں ضرورہیں، ان میں سے ایک شرط اس کی ذاتی قابلیت ہے۔
کیونکہ جس شخص میں قابلیت نہیں پائی جاتی اس کے پاس علم حاصل کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا۔جب کہ علم وہ چیز ہے جس کے لئے بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ جو علم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے اس کو کو ئی چیز نہ سکھاؤ کیونکہ اگر اس نے کچھ سیکھ لیا تو وہ اس کو غلط کاموں میں استعمال کرے گا اور دنیا کو تباہ کردے گا ۔کیوںکہ جاہل آدمی نہ کسی جگہ کو خراب کرتا ہے نہ آباد۔ موجودہ زمانہ میں استعماری حکومت کے وہ سرکردہ جو دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں ایسے ہی عالم ہیں۔قرآن میں مختلف تعبیریں پائی جاتی ہیں جو یہ سمجھاتی ہیں کہ تہذیب کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہیں ارشاد ہوتا< ہدیً للمتقین [2] یہ متقین کے لئے ہدایت ہے۔ کہیں فرمایا جاتا ہے ان فی ذلک لآیات لقوم یسمعون [3] دن اور رات میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جن کے پاس سننے والے کان ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ان لوگوں سے مخصوص ہے جو اس کے لئے پہلے سے آمادہ ہوں۔ اسی تعبیر کی بنا پر گذشتہ زمانہ میں علما ہر شاگرد کو اپنے درس میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔بلکہ پہلے اس کو اخلاقی اعتبار سے پرکھتے تھے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اس میں کس حد تک تقویٰ پایا جتا ہے۔
البتہ اپنے علم کو چھپانا نہیں چاہئے بلکہ اسے اہل افراد کو سکھانا چاہئے اور اپنے علم کے ذریعہ لوگوں کے دکھ درد کو دور کرنا چاہئے، چاہے وہ دکھ دردمادی ہو یا معنوی ۔ معنوی دکھ درد زیادہ اہم ہیںکیو ںکہ الله اس بارے میں حساب لے گا۔روایت میں ملتا ہے کہ” ما اٴخذ الله علی اہل الجہل ان یتعلموا، حتیٰ اخذ علیٰ اہل العلم ان یعلموا“ الله نے جو جاہلوں سے یا وعدہ لینے سے پہلے کہ وہ سیکھے،عالموں سے وعدہ لیا ہے کہ وہ سکھائے۔
) اسلام میں تعلیم اورتعلم دونوں واجب ہیں۔ اور یہ دونوں واجب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں کیونکہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔
) ا گر کوئی ظالم آپ پر ظلم کرے اور آپ اس سے بدلہ لیں تو آپ کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور آپ بھی اسی جیسے ہو جائیںگے۔ البتہ یہ اس مقام پر ہے جب ظالم اس معافی سے غلط فائدہ نہ اٹھائے، یہ اس معافی سے سماج پر برا اثر نہ پڑے۔
) اپنے عمل کو خالص اور بغیر ریا کے انجام دو۔ یہ کام بہت مشکل ہے، کیونکہ ریا، عمل کے فساد کے سرچشموں میں سے فقط ایک سرچشمہ ہے ورونہ دوسرے عامل جیسے عجب، شہوت نفسانی وغیرہ بھی عمل کے فساد میں دخیل ہیں اور عمل کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر میں ا نمازاس لئے پڑھوں کہ خود اپنے آپ سے راضی ہو جاؤں،تو چاہے دوسروں سے کوئی مطلب واستہ نہ مگر خود یہ کام عمل کے فساد کی ایک قسم کا سبب بنتا ہے۔ یا نماز کو عادتاً پڑھوں یا نماز شب کو اس لئے پڑھوں تاکہ دوسروں سے افضل ہو جاؤں ۔۔۔۔۔ تویہ علتیں بھی عمل کو فاسد کرتی ہیں۔
) اگر کوئی تم سے کوئی چیز مانگو اور وہ چیز آپ کے پاس ہو تو دینے سے منع نہ کرو۔ کیونکہ اگر دینے سے منع کروگے تو الله آپ کے خیر کو کم کردے گا۔ کیونکہ ” کمال الجود بذل الموجود“ ہے یعنی جو چیز موجود ہو اس کو دے دیناہی سخاوت کاکمال ہے۔ میزبان کے پاس جو چیز موجودہے اگر مہمان کے سامنے نہ رکھے تو ظلم ہے، اور اسی طرح اگر مہمان اس سے زیادہ مانگے جو میزبان کے پاس موجودہے تو وہ ظالم ہے۔
حدیث کا دوسرا حصہ :
حدیث کے دوسرے حصے میں کاموں کی سہ گانہ تقسیم کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔
۱ ) وہ کام جن کا صحیح ہونا ظاہر ہے۔
۲ ) وہ کام جن کا غلط ہونا ظاہر ہے۔
۳ ) وہ کام جو مشتبہ ہیں۔ یہ مشتبہ کام بھی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں :
الف) شباہت موضوعیہ :
ب) شباہت حکمیہ
یہ حدیث شبہات حکمیہ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کچھ روایتوں میں” الله کی طرف پلٹا دو“کی جگہ” مشتبہ کاموں میں” احتیاط کروکیوںکہ مشتبہات محرمات کا پیش خیمہ ہے“ بیان ہوا ہے ۔کچھ لوگوں کو یہ کہنے کی عادت ہوتی ہے کہ” کل مکروہ جایز“ یعنی ہر مکروہ جائز ہے۔ ایسے لوگوں سے کہنا چاہئے کہ صحیح ہے آپ ظاہری حکم پر عمل کرسکتے ہیں لیکن جہاں پر مشتبہ قطعی ہے اگر وہاں پر انسان اپنے آپ کو شبہات میں آلودہ کرے تو آہستہ آہستہ اس کے نزدیک گناہ کی برائی کم ہو جائے گی اور وہ حرام میں مبتلا ہو جائے گا۔ الله نے جو فرمایا ہے کہ ” شیطانی اقدام سے ڈرو“ شیطانی قدم یہی مشتبہات ہیں۔ نمازشب پڑھنے والا مقدس انسان کو شیطان ایک خاص طریقہ سے فریب دیتا ہے۔ وہ اس سے یہ نہیں کہتا کہ جاؤ تم شراب پیو، بلکہ پہلے یہ کہتا ہے کہ نماز شب کو چھوڑو یہ واجبات کا جزء نہیں ہے۔ اگر اس بات کو قبول کر لیا جائے تو آہستہ آہستہ واجب نماز کو اول وقت پڑھنے کے سلسلے میں قدم بڑھائےگا اور کہے گا کہ اول وقت پڑھنا تو نماز کی شرط نہیں ہے۔ اور پھر اسی طرح دھیرے دھیرے اس کو الله سے دور کردے گا۔
اگر انسان واقعاً یہ چاہتا ہو کہ نشاط روحی اور معنوی حالت حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ مشتبہ غذا ، مشتبہ جلسات و باتوں سے پرہیز کرتے ہو مقام عمل میں احتیاط کرے۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1] بحارالانوار،ج/ ۷۴ ، ص/ ۱۷۹
[2] سورہٴ بقرہ: آیہ/ ۲
[3] سورہٴ یونس: آیہ/ ۶۷
حدیث :
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم: ایہاالناس! یا تعطوا الحکمة غیر اہلہا فتظلموہا، ولا تنمعوہا اہلہا فتظلموہم،ولا تعاقبوا ظالماً فیبطل فضلکم، و لا تراؤوالناس فیحبط علملکم،و لاتمنعوا الموجود فیقل خیرکم ، ایہا الناس! ان الاشیاء ثلاثة: امر استبان رشدہ فاتبعوہ، وامر استبان غیہ فاجتنبوہ، وامر اختلف علیکم فردہ الیٰ الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [1]
ترجمہ :
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! نااہل افراد کو علم و حکمت نہ سکھاؤ کیو ںکہ یہ علم و حکمت پر ظلم ہوگا،اور اہل افراد کو علم و حکمت عطا کرنے سے منع نہ کرو کیو ںکہ یہ ان پر ظلم ہوگا۔ستم کرنے والے سے ( جس نے آپ کے حق کو پامال کیاہے)بدلہ نہ لو کیو ں کہ اس سے آپ کی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔ اپنے عمل کو خالص رکھو اور کوئی بھی کام ریاکے طور پر انجام نہ دو، کیونکہ اگر ریا کروگے تو آپ کے اعمال حبط ہو جائیں گے، جو تمھارے پاس موجود ہیں اس میں سے الله کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ بچو، کیونکہ اگر اس کی راہ میں خرچ کرنے سے بچوں گے تو الله آپ کی خیر کو کم کردے گا۔ اے لوگو! کاموں کی تین قسمیں ہیں۔ کچھ کام ایسے ہیں کہ جن کا صحیح ہونا ظاہر ہے لہٰذا ان کو انجام دو، کچھ کام ایسے ہیں جن کا باطل ہونا ظاہر لہٰذا ان سے پرہیز کرو اور کچھ کام ایسے یہں جو تمھاری نظر میں مشتبہ ہیں بس ان کو سمجھنے کے لئے ان کو الله کی طرف پلٹا دو “
حدیث کی شرح :
یہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہیں۔
حدیث کا پہلا حصہ :
حدیث کے پہلے حصے میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پانچ حکم بیان فرمارہے ہیں۔
) نا اہل لوگوں کو علم عطا نہ کرو کیونکہ یہ علم پر ظلم ہوگا۔
) علم کے اہل لوگوں کو علم عطا کرنے سے منع نہ کروکیونکہ یہ اہل افراد پر ظلم ہوگا۔ اس تعبیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طا لب علم کے لئے کچھ شرطیں ضرورہیں، ان میں سے ایک شرط اس کی ذاتی قابلیت ہے۔
کیونکہ جس شخص میں قابلیت نہیں پائی جاتی اس کے پاس علم حاصل کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا۔جب کہ علم وہ چیز ہے جس کے لئے بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ جو علم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے اس کو کو ئی چیز نہ سکھاؤ کیونکہ اگر اس نے کچھ سیکھ لیا تو وہ اس کو غلط کاموں میں استعمال کرے گا اور دنیا کو تباہ کردے گا ۔کیوںکہ جاہل آدمی نہ کسی جگہ کو خراب کرتا ہے نہ آباد۔ موجودہ زمانہ میں استعماری حکومت کے وہ سرکردہ جو دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں ایسے ہی عالم ہیں۔قرآن میں مختلف تعبیریں پائی جاتی ہیں جو یہ سمجھاتی ہیں کہ تہذیب کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہیں ارشاد ہوتا< ہدیً للمتقین [2] یہ متقین کے لئے ہدایت ہے۔ کہیں فرمایا جاتا ہے ان فی ذلک لآیات لقوم یسمعون [3] دن اور رات میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جن کے پاس سننے والے کان ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ان لوگوں سے مخصوص ہے جو اس کے لئے پہلے سے آمادہ ہوں۔ اسی تعبیر کی بنا پر گذشتہ زمانہ میں علما ہر شاگرد کو اپنے درس میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔بلکہ پہلے اس کو اخلاقی اعتبار سے پرکھتے تھے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اس میں کس حد تک تقویٰ پایا جتا ہے۔
البتہ اپنے علم کو چھپانا نہیں چاہئے بلکہ اسے اہل افراد کو سکھانا چاہئے اور اپنے علم کے ذریعہ لوگوں کے دکھ درد کو دور کرنا چاہئے، چاہے وہ دکھ دردمادی ہو یا معنوی ۔ معنوی دکھ درد زیادہ اہم ہیںکیو ںکہ الله اس بارے میں حساب لے گا۔روایت میں ملتا ہے کہ” ما اٴخذ الله علی اہل الجہل ان یتعلموا، حتیٰ اخذ علیٰ اہل العلم ان یعلموا“ الله نے جو جاہلوں سے یا وعدہ لینے سے پہلے کہ وہ سیکھے،عالموں سے وعدہ لیا ہے کہ وہ سکھائے۔
) اسلام میں تعلیم اورتعلم دونوں واجب ہیں۔ اور یہ دونوں واجب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں کیونکہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔
) ا گر کوئی ظالم آپ پر ظلم کرے اور آپ اس سے بدلہ لیں تو آپ کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور آپ بھی اسی جیسے ہو جائیںگے۔ البتہ یہ اس مقام پر ہے جب ظالم اس معافی سے غلط فائدہ نہ اٹھائے، یہ اس معافی سے سماج پر برا اثر نہ پڑے۔
) اپنے عمل کو خالص اور بغیر ریا کے انجام دو۔ یہ کام بہت مشکل ہے، کیونکہ ریا، عمل کے فساد کے سرچشموں میں سے فقط ایک سرچشمہ ہے ورونہ دوسرے عامل جیسے عجب، شہوت نفسانی وغیرہ بھی عمل کے فساد میں دخیل ہیں اور عمل کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر میں ا نمازاس لئے پڑھوں کہ خود اپنے آپ سے راضی ہو جاؤں،تو چاہے دوسروں سے کوئی مطلب واستہ نہ مگر خود یہ کام عمل کے فساد کی ایک قسم کا سبب بنتا ہے۔ یا نماز کو عادتاً پڑھوں یا نماز شب کو اس لئے پڑھوں تاکہ دوسروں سے افضل ہو جاؤں ۔۔۔۔۔ تویہ علتیں بھی عمل کو فاسد کرتی ہیں۔
) اگر کوئی تم سے کوئی چیز مانگو اور وہ چیز آپ کے پاس ہو تو دینے سے منع نہ کرو۔ کیونکہ اگر دینے سے منع کروگے تو الله آپ کے خیر کو کم کردے گا۔ کیونکہ ” کمال الجود بذل الموجود“ ہے یعنی جو چیز موجود ہو اس کو دے دیناہی سخاوت کاکمال ہے۔ میزبان کے پاس جو چیز موجودہے اگر مہمان کے سامنے نہ رکھے تو ظلم ہے، اور اسی طرح اگر مہمان اس سے زیادہ مانگے جو میزبان کے پاس موجودہے تو وہ ظالم ہے۔
حدیث کا دوسرا حصہ :
حدیث کے دوسرے حصے میں کاموں کی سہ گانہ تقسیم کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔
۱ ) وہ کام جن کا صحیح ہونا ظاہر ہے۔
۲ ) وہ کام جن کا غلط ہونا ظاہر ہے۔
۳ ) وہ کام جو مشتبہ ہیں۔ یہ مشتبہ کام بھی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں :
الف) شباہت موضوعیہ :
ب) شباہت حکمیہ
یہ حدیث شبہات حکمیہ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کچھ روایتوں میں” الله کی طرف پلٹا دو“کی جگہ” مشتبہ کاموں میں” احتیاط کروکیوںکہ مشتبہات محرمات کا پیش خیمہ ہے“ بیان ہوا ہے ۔کچھ لوگوں کو یہ کہنے کی عادت ہوتی ہے کہ” کل مکروہ جایز“ یعنی ہر مکروہ جائز ہے۔ ایسے لوگوں سے کہنا چاہئے کہ صحیح ہے آپ ظاہری حکم پر عمل کرسکتے ہیں لیکن جہاں پر مشتبہ قطعی ہے اگر وہاں پر انسان اپنے آپ کو شبہات میں آلودہ کرے تو آہستہ آہستہ اس کے نزدیک گناہ کی برائی کم ہو جائے گی اور وہ حرام میں مبتلا ہو جائے گا۔ الله نے جو فرمایا ہے کہ ” شیطانی اقدام سے ڈرو“ شیطانی قدم یہی مشتبہات ہیں۔ نمازشب پڑھنے والا مقدس انسان کو شیطان ایک خاص طریقہ سے فریب دیتا ہے۔ وہ اس سے یہ نہیں کہتا کہ جاؤ تم شراب پیو، بلکہ پہلے یہ کہتا ہے کہ نماز شب کو چھوڑو یہ واجبات کا جزء نہیں ہے۔ اگر اس بات کو قبول کر لیا جائے تو آہستہ آہستہ واجب نماز کو اول وقت پڑھنے کے سلسلے میں قدم بڑھائےگا اور کہے گا کہ اول وقت پڑھنا تو نماز کی شرط نہیں ہے۔ اور پھر اسی طرح دھیرے دھیرے اس کو الله سے دور کردے گا۔
اگر انسان واقعاً یہ چاہتا ہو کہ نشاط روحی اور معنوی حالت حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ مشتبہ غذا ، مشتبہ جلسات و باتوں سے پرہیز کرتے ہو مقام عمل میں احتیاط کرے۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1] بحارالانوار،ج/ ۷۴ ، ص/ ۱۷۹
[2] سورہٴ بقرہ: آیہ/ ۲
[3] سورہٴ یونس: آیہ/ ۶۷